ٹیکسوں سے بھرپور بجٹ بجلی گیس چینی سگریٹ مہنگے حکومت آئی ایم ایف شرائط مان گئی

مشروبات، الیکٹرونکس،پرنٹ، فوم و دیگر صنعتی اشیا اور ایل این جی پر نئے ٹیکس لاگو ہونگے۔


مشیرخزانہ کی منظوری کے بعد بجٹ میں ٹیکسوں کااعلان ہوگا۔ فوٹو: سوشل میڈیا

وفاقی حکومت نے آئندہ مالی سال 2019-20 کے وفاقی بجٹ میں چینی پر جی ایس ٹی کی شرح بڑھانے، گیس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کرنے، الیکٹرونکس،پرنٹ اور فوم انڈسٹری کی مصنوعات کی پرچون قیمت پر سیلز ٹیکس لاگو کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس سے چینی ،گیس سمیت دیگر اشیا کے مہنگے ہونیکا امکان ہے، اسی طرح سگریٹ اور مشروبات فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھنے سے مہنگے ہونے کا امکان ہے۔

صنعتوں اوربجلی کی پیداوار میں استعمال میں ہونیوالی ایل این جی کی درآمد پر 3فیصدکسٹمز ڈیوٹی کی چھوٹ ختم کرکے 5فیصد کسٹمز ڈیوٹی عائد کرنے کا بھی اصولی فیصلہ کرلیا گیاجس سے بجلی اور صنعتی اشیا مزید مہنگی ہوجائیں گی جبکہ آئندہ بجٹ میں مراعات یافتہ لوگوں،اداروں،امدادی اشیاء اور برآمدی اشیاء میں استعمال ہونے والے خام مال اور پلانٹس و مشینری کی درآمد پر کسٹمز ڈیوٹی و ایڈیشنل کسٹمز ڈیوٹی کی چھوٹ و رعایات برقرار رکھنے کا اصولی فیصلہ کیا گیا ہے جس سے ملکی درآمدات پر 60 کروڑ ڈالر سالانہ کا دباو ہوگا۔ حتمی فیصلہ مشیر خزانہ کی منظوری کے بعدبجٹ میں کیا جائیگا۔

''ایکسپریس'' کو دستیاب دستاویز کے مطابق پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف جائزہ مشن کی ٹیم کو بتایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں اضافی ریونیو اکٹھا کرنے کیلیے ٹھوس اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ پاکستان کی ٹیکنیکل ٹیم کی طرف سے آئی ایم ایف مشن کو پیش کی جانیوالی دستاویز کی ''ایکسپریس'' کو دستیاب کاپی کے مطابق آئی ایم ایف مشن کو بتایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں چینی پر جی ایس ٹی میں دی جانے والی رعایت ختم کرکے معیاری شرح کے مطابق سیلز ٹیکس لاگو کیا جارہا ہے۔

الیکٹرانکس،پرنٹ اور فوم انڈسٹری کیلئے ریٹیل پرائس ٹیکس سسٹم متعارف کروایا جارہا ہے جس کے تحت ان انڈسٹری کی تیار کردہ مصنوعات کی پرچون قیمت پر سیلز ٹیکس لاگو کرکے وصول کیا جائیگا اور ان انڈسٹریز کی مصنوعات پر پرچون قیمت اور سیلز ٹیکس کی رقم پرنٹ ہوگی۔

اسی طرح متعدد ایگزمشنز کے ساتھ یونیفائڈ ویلیو ایڈڈ ٹیکس(وی اے ٹی) متعارف کروانے کا بھی فیصلہ کیا گیا ہے دستاویز کے مطابق آئی ایم ایف جائزہ مشن کومزید بتایا گیا ہے کہ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں قدرتی گیس پر گیس انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ سیس کی جگہ فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جارہی ہے اور اس سمت ایف بی آر کو فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی مد میں 60 ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔

دستاویز کے مطابق بجٹ میں سگریٹ اور مشروبات پرعائد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح بھٰی بڑھائی جارہی ہے اس سے 37 ارب روپے سے زائد کا ریونیو حاصل ہوسکے گا۔ اسی طرح پیک شْدہ جوسز پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی عائد کی جارہی ہے جس سے پانچ ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔ دستاویز کے مطابق بجٹ میں غیر منقولہ جایئیداد اور سکیورٹیز پر کیپیٹل گین ٹیکس کیلئے ہولڈنگ پریڈ بڑھایا جارہا ہے اس سے انکم ٹیکس کی مد میں 20ارب روپے کا اضافی ریونیو ملے گا۔ آئندہ مالی سال کے وفاقی بجٹ میں بینکوں اور انشورنس کمپنیوں کی آمدنی پر عالمی معیار کے مطابق ٹیکس کا طریقہ متعارف کروایا جائے گا۔

آئی ایم ایف جائزہ مشن کو بتایا گیا ہے کہ درآمدی ایل این جی بجلی کی پیداوار کیلئے فرنس آئل کی جگہ متبادل فیول کے طور پر استعمال ہوتی ہے جبکہ فرنس آئل کی درآمد پر سات فیصد کسٹمز ڈیوٹی عائد ہے اور جب سے صنعتوں اور پاور پلانٹس میں بجلی کی پیداوار کیلئے ایل این جی کی درآمد ہوئی ہے اس وقت سے درآمدی سطع پر ریونیو کی مد میں بھاری نقصان ہورہا ہے اب اس اقدام سے چوبیس ارب روپے کا اضافی ریونیو حاصل ہوسکے گا۔

پاکستان اور آئی ایم ایف حکام کل بروز جمعہ اسٹاف لیول معاہدے کا ممکنہ اعلان کرینگے کیونکہ پاکستان نے عالمی مالیاتی ادارے کی بیشتر شرائط کو مان لیا جسے حکومت ماضی میںکڑی شرائط کہہ کر ماننے سے انکاری تھی۔ آئی ایم ایف جی ڈی پی کے 1.7فیصد تناسب سے نئے ٹیکس لگانے کے سخت فیصلے پر قائم ہے اگر حکومت اس فیصلے کو تسلیم کرتی ہے تو اسے 11 جون کو پیش ہونے والے آئندہ مالی بجٹ میں مزید نئے ٹیکسز لگانے پڑیں گے جس سے ملک میں مہنگائی کا طوفان پیدا ہو گا۔

وزارات خزانہ کے ذرائع کے مطابق پاکستان اور فنڈکے اعلی حکام آج جمعرات کو مذاکرات کے آخری دور میں باقی ماندہ مسائل بالخصوص تجارتی خسارے اور بنیادی بیلنس کے معاملات کو حتمی شکل دیں گے ۔

ذرائع کے مطابق حکومت کے پاس آئی ایم ایف کی شرائط ماننے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس حوالے سے پاکستان اور آئی ایم ایف حکام معاشی اور مالی پالیسیوں بارے ایک ڈرافٹ تیار کر رہے ہیں جو تین سالہ معاہدے کی بنیاد تصورہو گا۔ذرائع کے مطابق اس مرتبہ پاکستان کو ملنے والا پیکج اس کو ملنے والے 225 فیصد کوٹے کے برابر یا ساڑھے 6ارب ڈالر ہو گا۔ پاکستان اس سے قبل بھی تقریباً 5اعشاریہ 8ارب ڈالر کا مقروض ہے۔ اگر آج جمعرات کو فنڈ اور وزارت خزانہ کے مابین معاملات طے پا گئے تو کل بروز جمعہ پاکستان اور آئی ایم ایف ملکی تاریخ کے 22ویں پروگرام پر دستخط کریں گے۔

گزشتہ روز سینیٹ میں تحریک انصاف کے ٹریژری رہنما سنیٹر شبلی فراز نے دیگر دو سنیٹرز کے ہمراہ آئی ایم ایف مشن چیف ارنسٹو ریگو سے پارلمینٹ ہائوس میں ملاقات کی ۔ اس موقع پر آئی ایم ایف مشن کو بتایا گیاکہ بیل آوٹ پیکج کی کڑی شرائط کو ماننے کے لئے نئی قانون سازی کی ضرورت ہے لیکن تحریک انصاف فی الحال اس پو زیشن میں نہیں کہ ایسے قوانین کو پارلمنٹ کے دونوں ایوانوں سے منظور کروا سکے۔

اس موقع پر آئی ایم ایف مشن چیف ارنسٹو ریگو نے پاکستانی کی خراب مالی صورتحال کے علاوہ ملک کے مختلف سیکٹرز کو حاصل مراعات پر روشنی ڈالی۔ حکومت نے بیل آوٹ پیکیج کے حصول کے لیے مالی مراعات کے خاتمے اور ٹیکسز میں اضافے کی حامی بھری تھی ۔ پاکستان پر کڑی شرائط لگانے کی وجہ سے آئی ایم ایف پر بھی کڑی تنقید کی جار ہی ہے ۔

اندیشہ ہے کہ کہیں پاکستان ان کڑی شرائط کی بنا پر بیل آوٹ پیکج کو مکمل نہ کر سکے۔ذرائع کے مطابق گزشتہ 10سالوں کے دوران آئی ایم ایف کے پاکستان میں تعینات نمائندے ٹریسا ڈبن پاکستان پر زور دیتے رہے ہیں کہ حکومت مالی معاملات بہتربنانے کے لیے کچھ اہم اور مشکل فیصلے کرے ۔ذرائع کے مطابق آئی ایم ایف مشن چیف ارنسٹو ریگو پاکستان کو کچھ ریلیف دینے کے حق میں ہیں تاہم آئی ایم ایف نمائندہ ٹریسا ڈبن اس پر رضا مند نہیں۔

ایف بی آر حکام نے آئی ایم ایف کو تجویز پیش کی ہے کہ نئے ٹیکسز لگانے سے قبل دیگر اقدامات کی ضرورت ہے جس میں جی ڈی پی کے ایک فیصد کے حساب سے نئے ٹیکسز لگائے جائیں جبکہ باقی ماندہ خسارے کو ٹیکس وصولی کو مزید بہتر بنا کر حاصل کیا جا سکتا ہے تاہم آئی ایم ایف نے ایف بی آر کی تجویز کو مسترد کر دیا ہے۔

دریں اثناء ایف بی آر انتظامی ممبران نے شبر زیدی کی ایف بی آرچئیرمین کے عہدے پر تعیناتی کی مخالفت کر دی۔ ایف بی آرممبران کا کہنا ہے کہ شبر زیدی کی فرم آے آر فرگوسن متعدد کارپوریٹ معاملات میں ایف بی آر سے تنازعات کا شکار ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں

رائے

امن لازم ہے

Dec 22, 2024 03:40 AM |

انقلابی تبدیلی

Dec 22, 2024 03:15 AM |